غزہ میں غذائی بحران سنگین، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا
واشنگٹن(بولونیوز)اقوام متحدہ کی جانب سے وارننگ جاری کی گئی ہے کہ غزہ میں غذائی بحران سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔
یونیسیف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 16 لاکھ افراد سنگین حالات سے دوچار ہیں اور ایک لاکھ بچے بھی غذا سے محروم ہیں جب کہ سردی سے تحفظ نہ ملنے سے بھی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
یونیسیف کے مطابق اقوام متحدہ کے اداروں کی تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اکتوبر میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد غزہ کے کسی بھی علاقے کو اس وقت قحط زدہ قرار نہیں دیا جا رہا تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ بہتری انتہائی نازک ہے اور بڑے پیمانے پر امداد نہ ملنے کی صورت میں صورتحال دوبارہ سنگین ہوسکتی ہے۔
جنگ بندی اور انسانی و تجارتی رسائی میں بہتری کے بعد غزہ کے کسی بھی حصے کو اس وقت قحط کے درجے میں شامل نہیں کیا گیا تاہم اقوام متحدہ کے اداروں ایف اے او، یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ یہ پیش رفت انتہائی غیر مستحکم ہے۔
غزہ کی 77 فیصد آبادی، یعنی کم از کم 16 لاکھ افراد، اب بھی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد بچے اور 37 ہزار حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین شامل ہیں، جن کے اپریل تک شدید غذائی قلت کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
شمالی غزہ، غزہ گورنریٹ، دیر البلح اور خان یونس کو ایمرجنسی سطح (آئی پی سی فیز 4) میں رکھا گیا ہے جب کہ غزہ گورنریٹ کو قحط کے درجے سے کم کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ بندی کے بعد خوراک، جانوروں کے چارے اور بنیادی اشیاء کی ترسیل میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم زیادہ تر خاندان اب بھی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
جنگ بندی کے بعد سے 7 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور مکمل طور پر انسانی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔


