جمہوریت یا خوف؟ — تحریک لبیک پر پابندی یا سیاسی آزادی کا قتل

اسلام آباد کی فضا میں آج پھر سیاست کی سنگین گونج سنائی دی — وفاقی کابینہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں **تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)** پر پابندی کی منظوری دے دی۔ ذرائع کے مطابق یہ سفارش **پنجاب حکومت** کی جانب سے کی گئی تھی، جس نے ٹی ایل پی پر “پرتشدد کارروائیوں اور ریاست مخالف سرگرمیوں” کے الزامات عائد کیے۔ مگر سیاسی و عوامی حلقے اس فیصلے کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ اقدام دراصل **جمہوری اصولوں سے انحراف** اور **سیاسی آواز کو دبانے** کے مترادف ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریک لبیک پاکستان نے حالیہ برسوں میں عوامی سطح پر اپنی ایک مضبوط پہچان قائم کی ہے۔ ان کے بڑھتے ہوئے ووٹ بینک نے حکومت کے ایوانوں میں بے چینی پیدا کر دی — اور یہی خوف اس فیصلے کی بنیاد بنا۔

ایک مبصر نے کہا:
“یہ صرف ایک جماعت پر پابندی نہیں، بلکہ عوامی نمائندگی کے حق پر وار ہے۔” یاد رہے کہ 2023 کے انتخابات میں بھی **تحریک انصاف** کے ووٹ بینک پر شب خون مارا گیا تھا۔ فارم 47 کے نام پر **”من پسند حکومت”** بنائی گئی — اور اب ایسا لگتا ہے کہ اسی کہانی کا نیا باب رقم کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے علمبردار ملک میں اگر **سیاسی جماعتوں کو میدان سے ہٹانے** کا چلن رائج ہو جائے، تو پھر یہ جمہوریت نہیں، **آمریت کی جدید شکل** کہلائے گی۔ اسی حکومت نے **26ویں آئینی ترمیم** کے ذریعے پہلے ہی عدالتوں کو اپنی “پسند و ناپسند” کے مطابق فیصلے کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی تھی۔ اور اب ایک ایسی سیاسی جماعت کو، جو اپنے نظریے اور عوامی حمایت کے بل پر ابھری، **سیاسی صفحے سے مٹانے** کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 10 اکتوبر کو تحریک لبیک کا **سیاسی مارچ** — جو پُرامن طور پر اپنے حقوق کے اظہار کے لیے نکالا گیا — کو بہانہ بنا کر یہ پابندی عائد کر دینا، دراصل **جمہوری آزادی کے جنازے** کو کندھا دینے کے مترادف ہے۔ کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پابندیاں عوام کے دلوں سے سیاسی نظریات مٹا سکتی ہیں؟ تاریخ شاہد ہے کہ **جب بھی کسی آواز کو دبایا گیا، وہ گونج بن کر ابھری ہے۔** آج تحریک لبیک کے کارکن خاموش ہیں، مگر ان کی خاموشی آنے والے دنوں میں ایک **بلند سیاسی للکار** بن سکتی ہے —
ایک ایسی للکار جو شاید اقتدار کے ایوانوں کو ہلا دے۔

تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ محض ایک حکومتی نوٹیفکیشن نہیں —
یہ ایک خطرناک پیغام ہے کہ پاکستان میں سیاسی اختلاف، نظریاتی اظہار، اور عوامی آواز اب *ریاستی فیصلوں کی قید میں ہے۔* یہ فیصلہ صرف ایک جماعت کے خلاف نہیں، بلکہ **جمہوریت کے بنیادی فلسفے** کے خلاف ہے۔ اور شاید آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ فیصلہ حکومت کے لیے ڈھال ثابت ہوگا — یا **جمہوری زوال کا آغاز**۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *